شدت اتنی تھی کہ ابھی تک لرز رہا ہوں
درد اتنا تھا کہ ابھی تک کانکھ رہاں ہوں
چال ایسی تھی کہ شش جہت کو دشمن پاتا ہوں
ہنستا ایسے ہوں کہ چال ہنسنے کی بھول جاتا ہوں
قنوطیت میں ستائش رب کی ہی پائی میں نے
دغا دیتے ہوئے لوگوں کو فقط دیکھتا رہا ہوں
ضبط ایسا ہے کہ خوشی سب کی چاہتا ہوں
شدتِ آہ میں سکھ دوسروں کے دیکھ رہا ہوں
گرایا ایسے گیا کہ نظریں ملائی نہیں جاتی
ہر آنکھ میں فقط غیظ و غضب دیکھ رہا ہوں
ہاتھ ملانے سے جانے کیوں ڈر جاتا ہوں
ہاتھوں میں ہر شخص کے خنجر لیے دیکھتا ہوں
یقیں ہوتا نہیں کروں کیسے بیاں بلبل
چڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں