نکلا جو تیری الجھن سے کانٹا
پھنس گیا میری دھڑکن میں کانٹا
اندر کے احاطے سُونے تو نہیں
آنکھ کا ہمیشہ سوتن میں کانٹا
فرض اور آرزو ہیں جدا جدا
محبت کا ہر باطن میں کانٹا
چاہتیں چمن ڈھونڈتی ہیں مگر
خودی کے اُسی آنگن میں کانٹا
تن کی ساری لہریں جو اُبھری
جل گیا جسم جامن میں کانٹا
جستجو اور جوانی چھپائیں بھی کہاں
چُبھ گیا اپنے دامن میں کانٹا
شور نہیں تو غور نہیں سنتوشؔ
زندگی کے ہر اِس امن میں کانٹا