نہ وہ تم رہے نہ وہ ہم رہے
غم تمھارے بھی نہ غم رہے
بکھری زلفیں, رنجیدہ لحن
اب کہاں میرے ہم دم رہے
کرتے کم بستی آدم کے درد
وہ مسیحا بھی اب کم رہے
دل میں کچھ پر زباں پہ کچھ اور
یاری کے دعوے بے دم رہے
ہجر یا وصل اور احمد ابہم
وصل میں کیوں بصر نم رہے