نہ کوئی فکر ہے، نہ کوئی خیال ہے
یہ کیسا سکوت ہے، کیسا ملال ہے
ہر صدا میں چھپا اک وبال ہے
خامشی میں بھی عجب کمال ہے
ہجر آیا جب سے ہمارے درمیاں
ہرلمحہ ہر سانس فقط اک وبال ہے
پھیلی ہوئی ہیں اداسیاں ہر سو
کیسے شب وروز کیسا مہ و سال ہے
ساتھ ہو کے بھی وہ میرا نہ تھا
زمانہ پوچھتا ہے یہ ہجر ہے یا وصال ہے
بہار کے موسم میں بے رنگینیاں
گلوں پر طاری یہ کیسا زوال ہے
دیا جب سے ہجر کا روگ اس نے
دیکھو تب سے یہ دل کیسا نڈھال ہے
آ ئینہ ہم کو دیکھ کے کہنے لگا سائر
یہ چہرہ بھی کسی ستم کی مثال ہے