وصل شب کی چاپ میں رکھ لو تم میرا بھرم
کوچہ شیشہ گراں میں کیسی حیا کیسی شرم
محو گفتگو ہوئے وہ کچھ اس طرح ہم سے
انکی ادائے ناز ٹہری اور میری جاں پے ہیں ستم
حسرت ناکام پے کیسا ضبط اور کیوں ہو صبر
جل تھل ہوتے زخم ہیں اور خوف کے ہیں پیچو خم
وعدہ شب کے ہر پہر میں معجزے کی ہے امید
رت جگا شیوہ میرا اور بے رخی تیرا کرم
خود نمائی کے معیار اور تہمتوں کے ہیں سخن
خواب فروشوں کی گلی میں بے وفاؤں کے حرم