خزاں میں میں نے بہار کو دیکھا
صحرا میں میں نے آب و گل کو دیکھا
آج شب میں نے خواب جو دیکھا
خواب میں تیرے شباب کو دیکھا
آئینے میں جب میں نے اپنا عکس دیکھا
اپنی ہی آنکھوں میں تیری صورت کو دیکھا
زخموں کو جب میرے طبیب نے دیکھا
جسم میرا اس میں لہو تیرا دیکھا
بنا ابر کے میری آنکھوں سے
لوگوں نے اک سیلاب کو امڈتے دیکھا
انجم توں نے اس میں کیا کیا نہیں دیکھا
اک دیکھا نہیں تو وفا کو نہیں دیکھا