وفا میں کہیں تو مجھ سے بے وفا نہ ہو جائے
ڈرتا ہوں تو کہیں جد ا نہ ہو جائے
عشق بضد ہے سجدہ بے خودی کہہ لیے
خرد خائف ہے تو کہیں خدا نہ ہو جائے
بیاں کر تو دوں میں اداسی کا سبب
ُپھر سوچتا ہوں تو کہیں رسوا نہ ہو جائے
بھول سکتے ہو تو بھلا دو میری یادوں کو
مگر تیرے اندر کہیں خلا نہ ہو جائے
اتنی چاہت اک انسان سے اچھی نہیں وصل
روز محشر تجھے کہیں سزا نہ ہو جائے