وقتِ ہجراں میری وفا کی آزمائش ہے
وفا کے سنگ دل و جان کی آزمائش ہے
دیکھے گا زمانہ خود بدلتے ہوئے حالات سارے
بس کچھ دیر اور دعا کی آزمائش ہے
میرے زخم بھرے گے یا نہیں بعد کی بات
چارہ گر ابھی تری دوا کی آزمائش ہے
کیسے توڑے گے بھلا میرے ایمان کے مینار
محبتوں کی جناب! یہ تو بَلا کی آزمائش ہے
میں ہوں بے خبر منزلِ مقصود سے جناب!
منزل ملے گی یا نہیں راہنما کی آزمائش ہے
میرا تڑپنا میرے عشق کی نشوونما کرتا ہے
ظالم ! یہ ترے ظلمِ انتہا کی آزمائش ہے
نہالؔ جی ہم نے بس کرنی ہیں دعائیں مسلسل
قبول ہونگی یا نہیں خدا کی آزمائش ہے