جب تو مانند سحر جاتا ہے
وقت کا دل بھی ٹھہر جاتا ہے
تیرے پرتو کو چومنے کے لئے
چاند ندیا میں اتر جاتا ہے
زندگانی کا کھیل کیا کہئے
پھول کھلتا ہے بکھر جاتا ہے
آ غم زیست تجھے دیکھ ہی لیں
کہاں تک تیرا اثر جاتا ہے
تیرے چہرے کی تاب نہ لا کر
آئینہ خود سے مکر جاتا ہے
نہ ہو جب خیال میں ہم آہنگی
دوست بھی دل سی اتر جاتا ہے
عقل رہتی ہے گریزاں جن سے
عشق وہ کام بھی کر جاتا ہے