وقت کی لہر پھر عداوت کر گئی
دوستی دوست سے بغاوت کر گئی
اپنوں نے دیئے تو سہتے چلے آئے
اس غم کی یہی عنایت رہ گئی
کیا یہ دنیا اور کیا یہ زمانے
لگتا ہے شاید کوئی غلاظت رہ گئی
کون کہتا ہے کہ حسرت ہی نہیں
بس طبیعتوں میں تھوڑی تفاوت رہ گئی
جس کو دیکھا اپنے غرور میں تھا
ہم کو خود سے یہ شکایت رہ گئی
چاند کو فخر کہ سہائی مجھ سے
ستاروں کی شکوہ کہ شرارت ہوگئی
نہ جانے کیوں اب تک جیتے ہیں
لگتا ہے شاید اب کوئی عبادت رہ گئی