وقت کے رنگ میں تحلیل نہیں ہو پائے
وہ مرے حسن کی قندیل نہیں ہو پائے
شب کے آنگن میں تو سورج بھی ترا ڈوب گیا
ہم سمندر تو کبھی جھیل نہیں ہو پائے
آج پھر مجھ سے خفا ہے وہ مرا شہزادہ!
آج ہم حکم کی تعمیل نہیں ہو پائے
زرد آندھی میں شجر تھام کے رکھنا یارو
ہوا کے ہاتھ سے تذلیل نہیں ہو پائے
چاند کے ساتھ مسافت میں رہے شام و سحر
راستے پیار میں تبدیل نہیں ہو پائے
نقش سرکار تو سینے پہ ہے کندہ وشمہ
وہ مگر عشق کی تنزیل نہیں ہو پائے