وقت ہر چیز کا امکان بدل سکتا ہے
عین ممکن ہے ترا دھیان بدل سکتا ہے
زندگی میں ہے فقط تیری محبّت کی کمی
تو مری زیست کا عنوان بدل سکتا ہے
اب تری یاد تو اس دل سے نکلنے سے رہی
اپنی تقدیر کب انسان بدل سکتا ہے
ہم فقط وصل کے قائل تو نہیں چاہت میں
کب ہمیں ہجر کا طوفان بدل سکتا ہے
لے کے پھرتا ہے ترے غم کا حوالہ شاہی
تو جو چاہے تو یہ پہچان بدل سکتا ہے