وہ اُدھر مان کر نہیں دیتا
تُواِدھر مان کر نہیں دیتا
ہو اجازت تو میں چلا جاؤں
تُو اگر مان کر نہیں دیتا
میں نے چا ہا تھا چھوڑ دوں تم کو
دل مگر مان کر نہیں دیتا
جس کے قدموں کی خاک بن کے رہا
وہ قدر مان کر نہیں دیتا
عشق اپنا کسی بھی حالت کو
پُرخطر مان کر نہیں دیتا
روز جاتا ہے اس کے کوچے میں
یہ نڈر مان کر نہیں دیتا
لوگ کہتے ہیں میرے بارے میں
اک نفر مان کر نہیں دیتا
میں نے رو رو کے منتیں کی ہیں
کچھ اثر مان کر نہیں دیتا
جس کا سایہ گھنا نہ ہو اس کو
میں شجر مان کر نہیں دیتا
وہ قمر روز ملنے آتا ہے
یہ قمر مان کر نہیں دیتا
ہے سفر سامنے محبت کا
ہم سفر مان کر نہیں دیتا
یہ خبر اس نے ہی سنائی تھی
جو خبر مان کر نہیں دیتا
اس کا قصہ طویل ہے یارو
مختصر! مان کر نہیں دیتا
اس سے کیا فرق پڑنے والا ہے
شیخ گر مان کر نہیں دیتا
ساقیا سب تری شرارت ہے
مفت بر مان کر نہیں دیتا
شعر پڑھتا ہے وہ فقط میرے
جو ہنر مان کر نہیں دیتا
کیسے ہو گی تری دعا مقبول
تو نذر مان کر نہیں دیتا
پہلے اک دنیا مانتی تھی مجھے
اب یہ گھر مان کر نہیں دیتا
موسیٰ کچھ دیر چپ نہ رہ پائے
اب خضر مان کر نہیں دی
پہلے شیطان رب کا تھا منکر
اب بشر مان کر نہیں دیتا
ہے سفر سامنے محبّت کا
ہم سفر مان کر نہیں دیتا
وہ جو ہوتا ہے شب گزیدہ و سیم
وہ سحر مان کر نہیں دیتا