وہ اک غم کا گیت سنائے بیٹھا تھا
میں بھی سارے درد بھلائے بیٹھا تھا
رستہ کیسے ملتا میرے خوابوں کو
میں نیندوں سے شرط لگائے بیٹھا تھا
نیند فقط اس بات پہ مجھ سے روٹھی ہے
میں پہلے سے خواب سجائے بیٹھا تھا
میں آمین کہے جاتا تھا اُس لمحے
جب وہ اپنے ہاتھ اُٹھائے بیٹھا تھا
زینؔ اُسی کے دامن سے وابسطہ ہوں
جو ہاتھوں سے ہات چھڑائے بیٹھا تھا