وہ جو اک الزام تھا اس پر کہیں
آ نہ جائے، اب ہمارے سر کہیں
جس کی خاطر قافلہ روکا گیا
وہ مسافر چل دیا اٹھ کر کہیں
جب وہ دو پنچھی ملے تھے کھیت میں
پھر نظر آ جائے وہ منظر کہیں
خواہشوں کے غار کا منہ بند ہے
تم ہٹا دینا نہ وہ پتھر کہیں
آسماں سے آنے والے سات رنگ
تھے کسی کے، آ کے اترے پر کہیں
دل کی اک امید دل میں رہ گئی
اک دیا سا بجھ گیا، جل کر کہیں
لا پتہ ہے اک سمندر آج تک
جھانک بیٹھا تھا میرے اندر کہیں
آ گیا وہ جسم کے ملبے تلے
میں گرا دہلیز سے باہر کہیں
دھوپ کے لمبے سفر کے بعد، ہم
سانس لیں گے سایے میں رک کر کہیں