وہ جو پاگل ہے کبھی ایسا بھی کر سکتی ہے
میں نہ مل پایا تو جاں سے بھی گزر سکتی ہے
جس نے دور اس کو کیا مجھ سے وہ یہ تو سوچے
خود کشی بھی تو مرے بعد وہ کر سکتی ہے
انتظار اس کا صبح شام یونہی کرتا ہوں
میں نے منہہ پھیر لیا اس سے تو مر سکتی ہے
بس یہی سوچ تو سونے نہیں دیتی مجھ کو
رات تاریک ہے تنہائ میں ڈر سکتی ہے
وہ ستم سہہ کے بھی میرا ہی پکارے گی نام
میں نہیں مانتا الفت سے مکر سکتی ہے
اس دلاسے سے ہی سو جائیں یہ آنکھیں شاید
وہ مرے خواب کے آنگن میں اتر سکتی ہے
اپنے کمرے کو ٹٹولو تو سہی اے باقرؔ
اس کی خوشبو بھی تو کمرے میں ٹھہر سکتی ہے