وہ حال دل سہیلی کو سنانے میں لگے ہوں گے
جو ہیں شکوے گلے ہم سے بتانے میں لگے ہوں گے
سیہ گیسو ۔ لب و رخسار ۔ اور یہ تل د ہا نے کا
خد ا کو دن بہت تجھ کو بنا نے میں لگے ہو ں گے
یہاں تنہا ئیا ں ہیں اور آہ سرد سجنی کی
و ہاں پرد یس میں سا جن کما نے میں لگے ہوں گے
کیا تھا وعڈہ پکا پر نہیں آئے ہیں وہ اب تک
بہا نہ پھر نیا کوئ بنا نے میں لگے ہوں گے
سو یر ے سے حسن کا کچھ پتہ ہے نا ٹھکا نہ ہے
کہیں بیٹھے ہو ئے غز لیں سنا نے میں لگے ہوں گے