وہ حق کی راہ میں سر کو کٹا کے مارا گیا
جھکا نہیں تھا سو اسکو گرا کے مارا گیا
اسے کہا گیا بیعت تری ضمانت ہے
نہ مانا تو اسےکربل بلا کے مارا گیا
عجیب کاٹ تھی اسکی زبان میں یارو
سو جام خامشی اس کو پلا کے مارا گیا
دیار غیر میں رکھے نہیں جو لب خاموش
تو اسکے سر کو نشانہ بنا کے مارا گیا
شہ عرب سے کہا اسکو ملک بدر کرو
قریب لا کے اسے قتل گاہ کے مارا گیا
عجیب طرز کی تھی میزبانی یہ مفتی
جہاں پہ دوست کو مہماں بنا کے مارا گیا