دینے کو کچھ نہیں تھا وفا کے سوا
وہ سمجھ رہا تھا خدا - خدا کے سوا
معلوم تھا پھر بھی میں آزماتی رہی
کانٹوں میں آخر کیا تھا جفا کے سوا
پروں تلےنہ زمین تھی نا اوپر آسمان
۔ ُاس میں تھی بس انا - دغا کے سوا
ماں بیٹی کے رشتے میں بھی فریب آ گیا
میں کیا کہتی ماں کو فقط ُدعا کے سوا
۔ ُاس کا دیکھنا تھا کہ نظریں ُجھک گئی
مجھ میں ہے ہی کیا تھا - حیاء کے سوا
تیرے لہجے سے جواب مل گیا مجھے
جو سوال کرنا تھا ابھی عطا کے سوا