ان آنکھوں میں امڈتی سرخی کو
نجانے وہ کیسے پہچان لیتی ہے
میرے تمام کٹھن الجھے مراحل کو
نجانے کیسے وہ سلجھا بیٹھتی ہے
انجان بنتی ہے کچھ اسطرح
جیسے جانتی ہی نہ ہو کچھ
پر سوال داغ کے یونہی حیران کرتی ہے
واقف رہتی ہے کچھ اسقدر میرے حال سے
بنا پوچھے میری مشکل آسان کرتی ہے
جب بھی مدد درکار ہو اس سے کوئی
میرا ہاتھ تھام لیئے ساتھ چلتی ہے
ٹوٹتی ہے بکھرتی ہے اڑتی ہے بگڑتی ہے
پر محبت بے شمار کرتی ہے
اظہار سے بے اعتنائی برتتی ہے کچھ اسقدر
کے یہ سوال لیئے کل پر ٹال رکھتی ہے
محبت دکھتی ہے آنکھوں سے اسکی بھی
پر اس سے برملا انکار کرتی ہے
تعجب میں مبتلا رہتی ہے کبھی تو
کبھی سوئم کی شام لگتی ہے