وہ مجھ سے دور ہو کے خوش ہے تو رہنے دو
درد ء دل سے وہ انجان ہے تو رہنے دو
میں غیروں سے پتہ پوچھتا ہوں جس کا
وہ اپنوں میں مدہوش ہے تو رہنے دو
میں تنہائیوں کا مسافر ہوں تو کیا ہوا
وہ محفل کی شماء ہے تو رہنے دو
جاگ جاگ کر جس کے لئے غزلیں لکھتا ہوں
اگر وہ دل نادان ہے تو رہنے دو
جس دل میں خوابوں کا محل ہوا کرتا تھا
آج وہ ریگستان ہے تو رہنے دو
بس اک آرزو تھی کے وہ بھی ہم سے وفا کرتی فہیم
اگر وہ بےوفا ہے تو رہنے دو