تیری محفل میں آئے ہم تو حاضر اور ہی کچھ تھا
تقاضہ اور تھا دل کا ،میسر اور ہی کچھ تھا
پڑا تھا سامنے میرے نہ شیشہ تھا نہ پانی ہی
نہ آیا جب تلک ساقی تو ساغر اور ہی کچھ تھا
کبھی جس کو کسی کی نیلگوں آنکھوں سا کہتے تھے
جو دیکھا ڈوب کے اس میں،سمندر اور ہی کچھ تھا
نہیں تھا اپنی قسمت میں کسی کا ہمقدم رہنا
لکیریں جھوٹ کہتی تھیں،مقدر اور ہی کچھ تھا
نہ تن اپنا، نہ سانس اپنی نہ گھر نہ یہ زمیں اپنی
جسے ہم جینا کہتے تھے وہ چکر اور ہی کچھ تھا
فقط پتھر ہی پتھر تھے وہ سارے موم کے پیکر
حقیقت اور ہی کچھ تھی ،بظاہر اور ہی کچھ تھا