وہ کس کو ڈھونڈنے آیا تھا اس ادارے میں
جو میرا نام ہی پڑھتا رہا شمارے میں
وہ میری آنکھ کے ٹھہرا رہا اشارے میں
ہوا جو پیار کی بھرتا نہیں نطارے میں
پھر اس کا ساتھ مری زندگی کا کرب بنا
نمازِ عشق میں پڑھتی رہی خسارے میں
وہ میرا چاند ہے مجھ کو وہ لینے آئے گا
میں بن کے حور جو بیٹھی رہی ستارے میں
وہ بیچنا، وہ شرارت، وہ چاہتیں،وہ امنگ
سمائیں کشتیاں ساری سمے کے دھارے میں
ابھی تو درد کی موجوں میں غرق ہوں وشمہ
کبھی تو ہجر کی کشتی لگے کنارے میں