وہ مسکرا کے اگر ہمکلام ہو جائیں
تو سارے زیست کے دکھڑے تمام ہو جائیں
یہ سوچ کے نہیں جاتا کسی بھی محفل میں
کہ راز سارے محبت کے عام ہو جائیں
خدا کرے کوئی توہمت نہ تجھ کو چھو پائے
جو درد و غم ہیں تیرے میرے نام ہو جائیں
میں ایک شہر محبت نیا بساؤں گا
جو اہل دل ہیں جنوں کے غلام ہو جائیں
میں دادؔ ایک مسافر وفا کے راستے کا
میں کیا کروں تیری آنکھیں جو جام ہو جائیں