ٹوٹ کر کبھی اور بھی ٹوٹ جانا
کبھی کبھی یوں ہی خود سے روٹھ جانا
تم دے دینا یہ پیغام ُاسے
وہ مر جائے تو بے شک لوٹ جانا
وہ کس طرح بدل لیتا ہے خود کو
لکی تم ُاس کے پاس جا کر خود کو نا بھول جانا
آنکھیں نم ہونٹ خشک ہو گئے
اے دل ُاس کے جاتے ہی تم پتھر ہو جانا
یہ دیواریں ہی تو اب اپنی لگتی ہیں
اب دیواروں کو ہی تم اپنا دکھ بتا جانا
چلو مرنے تک اک سفر پر ساتھ چلتے ہیں
وہاں سے لوٹ کر چاہے تم بھول جانا