راستہ روکتے ہیں پاؤں بندھے سنگل سے
بڑا دشوار سفر ہو گیا ہے جنگل سے
جنون و جستجو میں خاک چھانتی پھرتی
گزر رہی ہوں میں تنہائیوں کے جنگل سے
ہواؤں سے گھٹاؤں سے بہار سے پوچھا
پتہ لیا ہے میں نے تیرے در کا بادل سے
دیوانہ وار تجھے ہم نے ایسے چاہا ہے
ہم خود سے جدا ہو کہ ہوئے پاگل سے
کہیں کا پانی مجھے اب نہ راس آئے گا
پیا تھا پانی بس اک بار تیری چھاگل سے
مہندی چوڑی اور میرے کنگن سے
تمہارے نام کی آئے گی صدا پائل سے
تیری جدائی نے کیسے نڈھال کر ڈالا
آکے دیکھ ذرا ہو گئے ہم گھائل سے
جہاں بھی جاؤ وہیں اسکا ساتھ پاؤ گے
بندھا تمہارا مقدر کسی کے آنچل سے
کسی کے دل پہ لکھا نام مٹ نہیں سکتا
جو نام لکھ دیا جائے وفا کے کاجل سے