پاؤں میں ہے حالات کی زنجیر پرانی
آنکھوں میں لیے پھرتی ہوں تصویر پرانی
ہر لفظ میں پنہاں ہے ترے پیار کا قصہ
دیکھی ہے ترے ہاتھ کی تحریر پرانی
ملتی ہے مجھے روز سزا اپنی انا کی
ویسے تو محبت میں ہے تقصیر پرانی
اب تک ہے ترے لمس کا احساس مری جاں
ہوتی ہے کہاں وصل کی تاثیر پرانی
یہ شام ترے ہجر کی یہ شوق کا عالم
یہ میری جوانی کی ہے جاگیر پرانی
دشمن کے مقابل میں کھڑی ہوتی ہوں وشمہ
ہاتھوں میں لئے عہد کی شمشیر پرانی