وہ ہمارے شہر میں دو چار دن کیا رک گیا
سب خزائیں چھٹ گئیں، پھولوں کا جھڑنا رک گیا
جب بھی اس نے بزم میں خاموش ہونے کا کہا
بات کرنا، دل دھڑکنا، سانس چلنا رک گیا
چاند کی اوقات کیا ہے، چاند بھی اس سے جلے
جب وہ نکلا رات کو تو چاند چڑھنا رک گیا
گفتگو ایسی کہ جیسے، فرش پر موتی گریں
مسکراہٹ وہ کہ جھیلوں کا بھی جھرنا رک گیا
اول اول مجھ کو ہوتی تھی تھکن لکھنے سے بھی
تجھ پہ اب لکھتا ہوں تو سوچوں کا تھکنا رک گیا