پاس آ کر نہ دُور ہو جانا
وقت کی بھیڑ میں نہ کھو جانا
بانہیں کھولے ہُوئے سمندر ہُوں
اپنے دکھ مجھ میں سب ڈبو جانا
موسموں سے جو بے نیاز رہیں
ایسی خوشیوں کے بیج بو جانا
نخلِ امید سُوکھنے کو ہے
ابر بن کر اسے بھگو جانا
اب کے، محرومیوں کے حسرت کے
میرے ماتھے سے داغ دھو جانا
آسماں کو زمین کر لینا
چاند تکیہ بنا کے سو جانا
رُوح و دل میں اُترنا چاہو تو
خوشبوئے وَرۡد میں سمو جانا