پتھر ہوں، مگر میں پتھر اسقدر بھی نہیں
دل دھڑکتا مگر دھڑکتا اسقدر بھی نہیں
کسی کے پیار کے جذبات کو میں نہ سمجھوں
ہوں سنگدل مگر سنگدل میں اسقدر بھی نہیں
تو نے پتھر تو مجھے لکھ دیا مگر پھر بھی
کورا پتھر ہوں، مگر کورا اسقدر بھی نہیں
پتھروں کی زباں ہوتی تو وہ بھی کہ دیتے
ہے یہ پتھر مگر پتھر کا اسقدر بھی نہیں
اللہ کرے کہ جس کی زُلف کا سایہ ملے اُسی کا رہوں
ہوتا ہوں سب کا مگر سب کا اسقدر بھی نہیں
نیت ہو صاف تو منزل سب ہی کو ملتی ہے
ہوتی ہے دُور مگر دُور اسقدر بھی نہیں