پورا کوئی تجھ سے بھی تو وعدہ تو نہیں تھا
احساس محبت بھی پرایا تو نہیں تھا
خاموشی سے تکتی ہیں مجھے چاند کی کرنیں
جب آنکھ میں اشکوں کا ستارا تو نہیں تھا
ممکن ہے مقدر کی کبھی آنکھ نہ کھلتی
گر اس نے مجھے آج پکارا تو نہیں تھا
بارود کی بارش یہ مرا گھر نہ جلا دے
ہر وقت تو نفرت کا تماشا تو نہیں تھا
سستا ہے لہو دیکھو شہیدان محبت
ورنہ تو یوں راہوں میں بہایا تو نہیں تھا
بانٹیں جو یہاں رسم محبت بھی ، جفا بھی
ہم جیسے فقیروں سے تو ایسا تو نہیں تھا
دیکھوں جو اسے بیٹھے ہوئے دل کی گلی میں
وشمہ وہ مری آنکھ کا دھوکا تو نہیں تھا