پورب سے اٹھتی ان صبا کا ہی سوچ لیتے ہیں
رُخ اُس پچھم کی ہوا کا بھی سوچ لیتے ہیں
فضاؤں کی ان شدت سے نہیں ڈرتی مگر
تیری سَر سے اڑتی ردا کا سوچ بھی لیتے ہیں
سنجیدگی کو یہ شراب کہاں بہکا سکیں گے
کچھ مدہوش تیری ادا کا سوچ بھی لیتے ہیں
اگر اپنی راستی کسی کو بھی راس نہیں تو
کبھی کبھی ہم جفا کا سوچ بھی لیتے ہیں
مستقل نرخ مل جائیں تو پھر کیوں پوچھیں
گمراہ اپنے صدا کا سوچ بھی لیتے ہیں
تیری مُسکان پر کچھ تو مَر ہی نکلے
شاید دیوانے قضا کا بھی سوچ لیتے ہیں
اس دامن کو داغ سے بچانے لیئے سنتوشؔ
کبھی کبھی ہم فدا کا بھی سوچ لیتے ہیں