پڑھ رہا ہے دل مرا فرمانِ عشق
سج گیا ہے پھر سے کیا ایونِ عشق
پھر کوئی جلوہ دکھاتا ہے مجھے
ہورہی ہوں پھر سے میں قربانِ عشق
مشغلہ میرا یہی ہے رات دن
ہر گھڑی بس دیکھتی ہوں شانِ عشق
جس کی خاطر عشق کا سودا کیا
اس کو بھاتا ہی نہیں سامانِ عشق
انگلیاں اپنی ڈبو کر خون میں
آرزد سے لکھ دیا دیوانِ عشق
بیقراری ہی مقدر ہے تو پھر
مضطرب ہے کس لئے محمانِ عشق
میں تری الفت میں صاحب لٹ گئی
تو ہی لینے آگیا ہے جانِ عشق