پھر آئینہ حیات کو میں نے سجا لیا
جل جل کے خود کو آگ میں کندن بنا لیا
ہمدم تری تلاش میں مٹی میں مل گئ
"ڈیپک کی مثل مجھکو محبت نے کھا لیا"
اشعار میں نمایاں رکھی فکر و فن کی بات
غزلوں کو دے کے رنگ کبھی گنگنا لیا
افشاں چھڑک کے پیار کی زخموں پہ بے وفا
جب آئی تیری یاد تو بس مسکرا لیا
خوشیاں نثار کر کے کسی باغبان نے
جلنے سے اپنے پیار کا گلشن بچا لیا
اترا تھا کوئی خواب کی تعبیر ڈھونڈلے
آنکھوں کے ریگزار میں رستہ گنوا لیا
وشمہ کسی کی یاد کا دل کے جہاں میں
سویا ہوا تھا درد کیوں پھر سے جگا لیا