پہلے دنوں کے پہلے قِصّے
جب پُھولوں کی ڈالی جیسی
پیار کی دیوی
خوشبوﺅں اور شہد میں لپٹی
اک اک قدم پہ سو بل کھاتی
اپنی درد سمندر آنکھیں
تم پہ جمائے بیٹھی تھی
اور تم سارے
سیفٹی بیلٹ لگائے ہوئے بھی
مدّو جزر کو روک نہ پائے
صدیوں بعد اچانک آخر
زیر زمیں یہ ہلچل کیا تھی؟
چھَتیں ، ٹاور، دیواریں، سب
دھڑ.... دھڑ.... دھڑ.... دھڑ
پل بھر میں ہی ڈھے گئے سارے
درد کا لاوا.... اُن آنکھوں سے
بہ، کے سُمندر ہونا چاہے
بے شک تم کہتے ہی رہ گئے
میں تو تعاقب میں خُوشبُو کے
بھاگ رہا ہُوں
دیکھ .... سوال کے بدلے....مَیں تو
لیکن آنکھوں نے .... پہلے بھی
ساتھ کسی کا دیا ہی کب ہے
سو تم نے بھی.... چاہا نہیں پر
صبح کے جھونکوں کی صُورت میں
رُوح تلک خُوشبُو بھر لی تھی
ساری فضا ہی دُھل گئی گویا
کونا کونا نِکھر گیا تھا
یہ پھر اور اک.... قِصّہ ہے.... کہ
بعد سرنڈر.... تم تو کِسی جرنیل سے بڑھ کر
خوش لگتے تھے
پہلے دِنوں کے پہلے قِصّے....
کیا تم پھر سے کہ، نہیں سکتے
تتلی پُھول اور خُوشبُو کبھی بھی
اک دوجے بِن رہ نہیں سکتے
جھوٹ کی گرمی سہ، نہیں سکتے