پھر ملے ہم، جب بھی بچھڑے، دائرہ کم ہی رہا
تیری جانب سے جدائی، مسئلہ کم ہی رہا
مکر ہم کو بھول پن نے مات دی ورنہ تجھے
ٹھیک سے پہچان لیتے، شائبہ کم ہی رہا
صورت احوال کی گہرائیاں سمجھے نہ ہم
عکس کی منظر کشی کو آئنہ کم ہی رہا
ہم سمجھ پاتے اداوں کو تری شائد مگر
جور سے آزار سے کچھ واسطہ کم ہی رہا
داستاں زندہ رہی تھی زندگی کے بعد تک
مارنے رسوائیوں کو خاتمہ کم ہی رہا
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں تھا بس تنہا سفر
قافلوں سے راستے میں رابطہ کم ہی رہا
دور تک منزل کہاں؟ نامُ نشاں کوئی نہ تھا
اور کہنے کو دلوں میں راستہ کم ہی رہا
آس کے پیڑوں میں اظہر نے جو رکھی تھی لچک
توڑنے اک شاخ کو پھر زلزلہ کم ہی رہا