پھر میرے شہر سے گزرا ہے وہ بادل کی طرح
دست گل پھیلا ہوا ہے میرے آنچل کی طرح
کہہ رہا ہے کسی موسم کی کہانی اب تک
جسم برسات بھیگے ہوئے جنگل کی طرح
اونچی آواز میں اس نے تو کبھی بات نہ کی
خفکیوں میں بھی وہ لہجہ کو مل کی طرح
مل کے اس شخص سے میں لاکھ خموشی سے چلوں
بول اٹھتی ہے نظر، پاؤں کی چھاگل کی طرح
پاس جب تک وہ رہے درد تھما رہتا ہے
پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح
اب تک طور سے گھر جانے کی صورت ہی نہیں
راستے میرے لیے ہو گئے دلدل کی طرح
جسم کے تیرہ و آسیب زدہ مندر میں
دل سر شام سلگ اٹھتا ہے صندل کی طرح