پھولوں کی تمنا کی اور کانٹوں سے جا ٹکرا
گلشن کی روایت تھی میں تو بے خبر اجڑا
بڑی سانس لیکر جو رنج پالیا ہم نے
درد کا یہی لقمہ پھر حلق سے اترا
میری ہنگاموں کو پھر زباں بھی کیسے ملتی
آنکھوں میں سمندر رہا اور گرا بھی نہ قطرہ
ان کی بات ان کو بھی نہ بتا سکے پھر
یوں چبھ رہا ہے دامن میں اب وہی فقرہ
اک ہی خیال کو تو سرشام اجاڑا گیا
پھر وہی خواب میری پلک سے نہ گذرا
میری طرز عبادت دیکھو کیسے رنگ لائی
جس پتھر کو پوجا وہ پتھر ہی نکلا