میں تمہاری یاد کو دل سے جدا کیسے کروں
پھول سے اُس کی مہک کو میں رہا کیسے کروں
شدتِ ذوقِ تپش سے مجھ پہ قرباں ہو گیا
قرض تیری جان کا اب میں ادا کیسے کروں
ساز میرے دل کا تُو اور میں ہی ہوں تیری غزل
اب بنا تیرے میں اپنی ابتدا کیسے کروں
جان سوزی سے نہیں فرصت کہ جان کردوں نثار
خود کو میں بھی راکھ ہی اب با خدا کیسے کروں
شوقِ ایثاری سے تیرے شمع بھی نادم ہوئی
تُو بتا میں زندگی تجھ پہ فدا کیسے کروں