وہ روبرو بھی ہے تو کیا فائدہ پہلے جیسا پیا ر نہیں کرتے
گِلہ بھی ہے مجھ سے اُن کو ناجانے کیوں آکے اظہار نہیں کرتے
نظروں سے اکثر میں نے بے رخی کا سبب پوچھا اُس سے
وہ نظریں جھُکا کے گز ر جاتے ہیں ، نظریں دو چار نہیں کرتے
معاف کر دے میری خطائیں ایک با ر بس
اپنی غلطیاں چھپا تو نہیں رہے کیاا قرار نہیں کرتے ؟
یا فیصلہ کرچکے ہو مجھے سزا دینے کا
وار کرو پھر مجھ پے کیوں اپنے آپ کو تیا ر نہیں کرتے
تیری قسم تیرے عشق کے ہاتھو ں مجبور ہوں
اِس لیے ہی سہہ رہے ہے کوئی سوال نہیں کرتے
بڑا ہی ہے کومل نہا ل مزاج دل کا
دل والوں کو تڑپانا ، ایسا بار با ر نہیں کرتے