پیار کا ڈھونگ رچاتے ہیں چلے جاتے ہیں
روز دو چار جو آتے ہیں چلے جاتے ہیں
زمیں کی گود میں رہتے ہوئے دیکھے اکثر
آسماں سر پہ اٹھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
سخت موسم کے گزرنے کے تو اوقات نہیں
درد سینے میں چھپاتے ہیں چلے جاتے ہیں
بن کے دربار میں بیٹھے ہیں یہاں مست ملنگ
عشق کو سر سے ہٹاتے ہیں چلے جاتے ہیں
اس سے پہلے کہ نئی چال چلے دشمنِ جاں
زندگی اپنی جلاتے ہیں چلے جاتے ہیں
قابلِ رشک اثاثہ ہے ہمارا وشمہ
خواب آنکھوں میں سجاتے ہیں چلے جاتے ہیں