پیچھے پڑے رہے وہ دن رات آزمائے
میرے عدو نے میرے حالات آزمائے
جب درد ڈھل کے لوگو اشعار بن گئے
ان کو چھپا کے اس نے جذبات آزمائے
کم ہو سکی نہ چاہت اس کے لئے عدو نے
سوچوں کے ہر طرح سے آلات آزمائے
ان کو بھلاوں کیسے کچھ مشورہ ہی دے دو
دَیر و حرم سے مَیں نے خرابات آزمائے
یہ جوش کم نہ ہوگا دشمن سے جعفری کہہ
دار و رسن بنا کر تا حیات آزمائے