اس ستم گر کی آرزو کرنا
ہے بس ارماں لہو لہو کرنا
تم سمجھتے ہو گر غلو کرنا
چاند کو اس کے رو برو کرنا
وقت تنہائ کا نکال ذرا
تجھ سے ہے تھوڑی گفتگو کرنا
ہے عجب عادت اس ستمگر کی
چاک کر دینا - پھر رفو کرنا
میری عادت ہے یاد کر کے تجھے
بس اکیلے میں گفتگو کرنا
جتنا چاہو ستم کرو لیکن
جو بھی کرنا ہو رو برو کرنا
عہد کرتا ہوں پارسائ کا
شیخ سکھلا دے اب وضو کرنا
اپنا ہے بس شگفتگی ہی مزاج
مجھ کو آیا نہ تو پہ تو کرنا
تیرا کردار ہو شناخت تری
بیٹے ! یوں مجھ کو سرخرو کرنا
خود ہی ٹوٹیں گے دھاگے سب اک دن
چاک کیوں دامن عدو کرنا
میری کوشش ہے اپنی غز لوں کو
اک تصو ر کے ہو بہو کرنا
کیا پتہ تھا گناہ ہو گا ‘ حسن ‘
اس کو پانے کی آرزو کرنا