چاند کے چہرے سے جیسے داغ ہٹایا نہیں جاتا
میرے دل سے تیرا نام مٹایا نہیں جاتا
میں ریت کے گھروندے بناتا رہا ساری زندگی
میں بھول گیا کہ ریت کو ہاتھ میں ٹھرایا نہیں جاتا
کیوں چلے آتے ہو روز میرے خوابوں میں
تم آؤ تو پھر ہم سے اک پل بھی سویا نہیں جاتا
آج تو ہم سے آنکھوں نے بھی شکایت کر دی
اب ہم سے اور اُس کے لیے رویا نہیں جاتا
میں تیرے آگے اپنا سر بھی جھکا لوں اے خاکی
مگر یہ سر خدا کے سوا جھکایا نہیں جاتا