چاہتی ہوں تجھے یاد سے ہی بھلادوں
پھر بڑی سانس لیتے عجیب سا لگتا ہے
اٹھایا جو قلم تھا تیرا نام ہی لکھ دیا
یوں انگلیاں کپکپاتے عجیب سا لگتا ہے
میرے حسرتوں نے نیلامی کی انتہا کردی
خود ہی سے پوچھتے بڑا عجیب سا لگتا ہے
تو کیا جانے کہ اپنا کون پرایا کون؟
یہ اپنی دل کو کہتے عجیب سا لگتا ہے
زندگی بے مروتوں کے غم میں ہی گذر گئی
بڑی سردمہری پر سوچتے عجیب سا لگتا ہے
وہ بستر کی کروٹیں اور بانہوں کی نرمیاں
خواب و خیالوں سے جگتے عجیب سا لگتا ہے
تنہا راتوں میں یہ تیرے بچھڑنے کاغم
سب ستاروں کو یہی بتاتے عجیب سا لگتا ہے
سبھی پریشانیاں اب پلکوں میں آ رک گئیں
اٹکے آنسوؤں کو پھر گراتے عجیب سا لگتا ہے
تجھے بڑا جگر تو بچوں کے ضد پہ مت جا
دکھی دل کو یوں بہلاتے عجیب سا لگتا ہے