چاہت کو ایک موڑ نیا دے کے چل دیا
وہ مجھ کو چاہنے کی سزا دے کے چل دیا
اس نے بھی مڑ کے دیکھا نہیں جان بوجھ کر
اور میں بھی ایک بار صدا دے کے چل دیا
کرتا رہا ہے ہم سے جو خواہش وفاؤں کی
افسوس خود ہی داغ جفا دے کے چل دیا
تڑپے گا خود بھی وہ کبھی درد فراق میں
جو دل کی بے کلی کو ہوا دے کے چل دیا
ساحل خدا بھلا کرے اس ہمسفر کا جو
میرے قلم کو ذوق نوا دے کے چل دیا