چشم ثاقی نے یہ کیا کھیل رچا رکھا ہے
کوئی زاہد، کوئی مے خوار بنا رکھا ہے
جو پھنسا پھر نہ کبھی اس نے نہ رہائی مانگی
تیری زلفوں نے عجب جال بچھا رکھا ہے
حسن ہو عشق ہو، دونوں کا اثر یکساں ہے
چیز اک ہے مگر نام جدا رکھا ہے
رخ پہ لہراتی ہیں کبھی شانوں سے الجھ پڑتی ہیں
تو نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے
تیری مخمور نگاہوں سے ہے رونق ساری
وگرنہ ثاقی، تیرے مے خوانے میں کیا رکھا ہے