چند لمحے یہاں ٹھہرنا ہے
ہر گھڑی شیطنت سے ڈرنا ہے
موت کی دسترس سے کون بچا
اک نہ اک دن سبھی کو مرنا ہے
کچھ بھی ہو تار تار ہو نہ لباس
خارزاروں سے یُوں گزرنا ہے
خشک رکھنا ہے اپنا دامن بھی
اور دریا میں بھی اترنا ہے
وَرۡد کب تک کھلا رہے گا ندیم
آخرِ کار اسے بکھرنا ہے