اٹھ کے جھکا تھا وہ جھکایا ہوا چہرا
ہمیں بے نقاب کر چلا تھا، وہ اشکوں بھرا چہرا
کیا کہیں اس رات کی مدہوشی میں
کیسا ابھرا تھا،وہ ابھرتا ہوا چہرا
تنہائی میںسر راہ چپکے سے نکل کر
اتر آتا ہے لبوں پہ، وہ چھپایا ہوا چہرا
جب سے ملا ہے وہ مسکراتی اداؤں کے ساتھ
قسم جانو نگاہوں میں بسا ہے، وہ کھلتا ہوا چہرا
تاریکی میں دیکھو تو بدل جاتا ہے
لگتا ہے روشن،وہ چاند سا چہرا
سربزم مجھے آکہ ستاتا ہے ہمیشہ
وہ روپ کہ،زندگی پہ چھایا ہوا چہرا
کتنے ہی حسن والوں میں ڈھونڈا ہے ساگر
لگتا ہے لایا تھا کہیں سے،وہ چرایا ہوا چہرا