چیرے پہ نقاب کر کے
سمٹ کر وہ نکلی تھی گھر سے
چادر میں لپٹی تھی علم کی تلاش میں
راہِ حق پر نکلی تھی روشنی اجالے سے
اپنے من تن کو چھپائ تھی
آندھی اور اندھیرے سے
وہ تو بہت ڈرتی تھی
وہ نازک خیال نازک طبح
دلربا لہجے میں بات کرتی تھی
اک خوفناک چیخ نے
لرزادیا اس کا بدن
ٹوٹ گئیں چوڑیاں بکھر گئیں چزیاں
خون میں نہا گئیں
بکھر کر رھ گئ
بکھری پڑی تھیں ہر طرف
چہرہ گلاب کا نقاب سے ہٹ گیا